حضور علیہ السلام نے جواباً اس میں یہودی علماء کے حوالوں سے یہ ثابت فرمایا ہے کہ انجیل لفظاً بلفظ طالمود سے نقل ہے۔ ایک ہندو نے یہ ثابت کیا ہے کہ انجیل بدھ کی تعلیم کا سرقہ ہے اور خود یورپ کے عیسائی محققین نے لکھا ہے کہ انجیل کی بہت سی عبارتیں اور تمثیلیں یوز آسف کے صحیفہ سے ملتی ہیں۔ تو کیا اب مسیح کی تعلیمات کو بھی مسروقہ ہی قرار دے دیا جائے۔ حضور علیہ السلام نے لکھا ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم کا اگر کوئی حصہ قدیم نوشتوں سے ملتا ہے تو یہ وحی الہی میں توارد ہے ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو محض اُمّی تھے اور عربی بھی نہیں پڑھ سکتے تھے چہ جائیکہ یونانی یا عبرانی۔
قرآن کریم ایک زندہ معجزہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس میں جو گزشتہ خبریں اور قصّے ہیں وہ بھی اپنے اندر پیشگوئیوں کا رنگ رکھتے ہیں اور پھر اس کی فصاحت و بلاغت بھی ایسا معجزہ ہے کہ آج تک کوئی اس کی نظیر پیش نہیں کر سکا۔
اس کے بعد حضور علیہ السلام نے موجودہ عیسائیت کے عقائد تثلیث، الوہیت مسیحؑ اور کفارہ وغیرہ کا رد پیش کیا ہے اور اسلام اور عیسائیت کی تعلیمات درباره عفو و انتقام کا موازنہ پیش فرمایا ہے۔
چشمئہ مسیحی کے خاتمہ کے طور پر ایک رسالہ نجاتِ حقیقی کے نام سے شامل ہے جس میں حضور علیہ السلام نے یہ ثابت فرمایا ہے کہ عیسائیوں کے نزدیک نجات کے معنے یہ ہیں کہ انسان گناہ کے مواخذہ سے رہائی پا جائے۔ یہ محدود اور منفی معنے ہیں در اصل نجات اس دائمی خوشحالی کے حصول کے نام ہے جو خدا تعالی کی محبت اور معرفت اور تعلق سے حاصل ہوتی ہے۔ معرفت کی بنیاد اس امر پر ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کا صحیح علم ہو۔ عیسائیت کے عقائد تثلیث اور الوہیت مسیح معرفت حقیقی کے خلاف ہیں۔ حضور علیہ السلام نے ثابت فرمایا ہے کہ عیسائیت کے موجودہ عقائد کا خدا کے نبی عیسی بن مریم علیہ السلام سے کوئی تعلق نہیں یہ سب پولوس کی ذہنی تخلیق ہیں۔
Hazrat Mirza Ghulam Ahmad (1835-1908), the holy founder of the world-wide Ahmadiyya Muslim Community, born in Qadian, a village in rural Punjab, India, was the Divinely appointed Reformer of the latter days and the Promised Messiah and Mahdi. He was sent by God in fulfilment of the prophecies contained in the Holy Bible, the Holy Quran and Hadith, with the express task of rediscovering Islam in its pristine purity and beauty, and bringing mankind back to the Creator.