ہم وہ سنتے ہیں، جو ہم سننا چاہتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں، جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔وہ یاد رکھتے ہیں، جو ہم یاد رکھنا چاہتے ہیں۔
اور بعض دفعہ ہم دوسروں کے کانوں سے سنتے ہیں، دوسروں کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، دوسروں کا کہا یاد رکھتے ہیں۔
لیکن حقیقت کچھ اور بھی تو ہوسکتی ہے؟
میری یہ کہانی ایک "ہلکی پھلکی کہانی" کی کیٹیگری میں شامل کی جا سکتی ہے۔ یہ میں نے کسی مذہبی، معاشرتی یا کسی بھی حساس موضوع پر نہیں لکھا۔اور اس میں ہلکے پھلکے انداز میں ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے، جو ہم کسی انسان کے بارے میں فرض کر لیتے ہیں، بِنا جانے کہ یہ انہیں ہرٹ کر سکتا ہے ۔ اتنا کہ ان کی شحصیت اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے۔ ہم اپنے اصولوں، اپنی پسند، اپنی لغت کے حساب سے لوگوں کو "عجیب"، "ابنارمل"، "بچکانہ"، "کھڑوس" اور جانے کن کن ناموں سے ٹیگ کردیتے ہیں۔ اور پھر یہی ان لوگوں کہ پہچان بن جاتی ہے۔ کون سوچنے کی زحمت کرتا ہے کہ سچائی کیا ہے؟ کون سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ وجہِ تسمیہ کیا ہے؟
کچھ خوش قسمت ہوتے ہیں، سب sort out ہو جاتا ہے۔ جو بہادر ہوتے ہیں، وہ سروائیو کر جاتے ہیں۔ باقی اسٹرگل میں ہی زندگی گزار دیتے ہیں۔میں نے کچھ عزیز لوگوں کو ایسی not a big deal قسم کی سچویشن سے جوجھتے دیکھا ہے۔امید ہے کہ ہم کسی پر ایسا اسٹریس ڈالنے کا باعث نہ بنیں۔
Shabana Mukhtar is a software professional. She cannot sleep much and therefore has a lot of time to obsess over things. She keeps herself busy in various do-it-yourself
She has 45+ self-published books to her credit on Amazon and Google in English, Urdu and Hindi. Her writing ranges from short stories to novels, from satire to memoir, from fluff romances to social-family drama.
She lives in Pune, India.
She can be reached through any of the following mediums.
Email: shabana.mukhtar.
Blog: https://
Goodreads: https://www.
Facebook: https://www.
Twitter: https://twitter.com/
Instagram: https://www.